Thursday, March 19, 2020

کرونا اورکرانچی والے



کراچی کے لوگ صدیوں سے انسان دوست ہیں۔ پاکستان بننے سے پہلے ہندو اور پارسیوں نے جو انسانیت کی بھلائی کے کام کیے تھے ان کے آثارآج بھی شہر کے کئی علاقوں میں موجود ہیں۔ کراچی کی آبادی میں 1947 کے بعد بے پناہ اضافہ ہوا، مگر شاید یہ اس شہرکی مٹی میں شامل ہے کہ یہاں آنے والے نئے باسیوں (شخصیات اور اداروں) نے اسی طرح آگے بڑھ کر بےشمار بھلائی کے کام کیے ہیں، جن میں اکثر کا دائرہ تو پورے ملک تک پھیلا ہوا ہے۔

وہ عبدالستارایدھی ہو، ظفرعباس یا رمضان چھیپا ہویا سیلانی ویلفیئر ہو، جے ڈی سی ہو یا عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ، یا پھر انڈس ہاسپیٹل یا سٹیزنز فائونڈیشن ہو، افراد و اداروں نے ہر مصیبت کی گھڑی میں کراچی کے باسیوں کی دل کھول کر امداد کی ہے۔ ملک میں اگر کوئی مصیبت آئی یہی شخصیات اورتنظیمیں ہیں جنہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔

خواہ 2005 کا کشمیروکے پی کے کا اندوہناک زلزلہ ہو، 2010 کا سپر سیلاب ہو، 7-2005 کا کراچی میں ہیٹ ویو ہو، کراچی کے مخیر انسانوں اور اداروں نے وقت کی حکومت سے زیادہ امداد کی ہے۔ یہ سب میرا ذاتی مشاہدہ ہے۔


پاکستان سینٹر آف فلنتھراپی کی 2015 – 2014 میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق سندھ کے لوگ نا صرف روپوں میں امداد کرتے ہیں ، بلکہ صوبے کے کئی مخیرافراد اپنا وقت فلاحی کاموں میں زیادہ دیتے ہیں اوروقت دینے کی یہ شرح تمام صوبوں کے مقابلے میں سندھ میں سب سے زیادہ ہے، جو کہ 48 فیصد بنتی ہے۔ البتہ روپوں میں دی گئی امداد کے تناسب میں سندھ دوسرے نمبر پر رہا، مگر یہ رقم بھی آبادی کے لحاظ سے کافی زیادہ ہے ۔



آج بھی جب پورا ملک کرونا وائرس کی وبا سے خوفزدہ ہے اور 19 مارچ تک اس وائرس میں مبتلا افرد کی تعداد 453 تک جا پہنچی ہے، سب سے زیادہ متاثر افراد میں سندھ کی افرادکی تعداد سب سے زیادہ ہے، جن میں سے اکثریت ان افراد کی ہے جو ایران زیارتوں کے لیے گئے ہوئے تھے اور واپسی میں ان کو بارڈر پر روک لیا گیا تھا۔ ایران سے آئے زائرن کو پہلے 14 دن تک تفتان بارڈر پر حکومت پاکستان کی طرف سے قائم کردہ قرنطینہ میں رکھا گیا تھا، اور اکثر متاثرین وہاں رہتے ہوئے ناقص انتظامات کی وجہ سے وائرس کا شکار ہوچکے ہیں۔جب ان افراد کا سکھر پہنچنے پر دوبارہ ٹیسٹ کیا گیا تو اکثریت کا ٹیسٹ پازیٹو نکلا۔

اس مایوس کن صورتحال میں کراچی آج بھی امداد میں آگے ہے۔ جے ڈی سی کے سربراہ ظفرعباس اج بھی سکھرشہرمیں موجود ہیں، جہاں ایران زائرین کی سب سے بڑی تعداد قرنطینہ ہسپتال میں داخل ہیں، جو کہ نئی تعمیر شدہ لیبر کالونی میں قائم کی گئی ہے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا تنہائی وارڈز والا سینٹر قرار دیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ دیگر سماجی تنظیمیں بھی امدادی سامان لے کر پہنچی ہوئی ہیں۔


ادھر کراچی میں بھی کئی افراد کرونا وائرس کی وجہ سے شہرمیں قائم سرکاری و نجی ہسپتال میں زیرعلاج ہیں۔ یہ افراد ایران کے علاوہ سعودی عرب، عرب امارات، برطانیہ اور دیگر ممالک سے آئے تھے۔ کچھ افراد ایسے بھی ہیں جی کی کوئی ٹرویل ہسٹری نہیں ہے۔ سندھ حکومت نے 3 ارب روپے کی سیڈ منی پر مشتمل ایک امدادی فنڈ قائم کرلیا ہے اورمخیرافراد سے اس فنڈ میں حصہ ڈالنے کی اپیل بھی کی گئی ہے۔ شہر کی کئی مخیر شخصیات کو اس فنڈ کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے شامل کیا گیا ہے۔

بہت سی کراچی کی تنظیموں نے اس وبا سے نمٹنے کے لیے کئی عملی اقدامات کا اعلان کیاہے۔ شہر میں لاک ڈائون کی صورتحال کے پیش نظردہاڑی پر کام کرنے والے مزدور سب سے زیادہ شدید مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ انٹرسٹی ٹرانسپورٹ بند ہے، جس وجہ سے دیگر شہروں سے آمدرفت مشکل ہے، بڑے شاپنگ مالزاور مارکیٹس کو بند کرنے کا حکم دیا جاچکا ہے۔ کھانےپینے کے ہوٹل اور شادی ہال بند کردیے گئے ہیں، جہاں ہزاروں نوجوان دہاڑی پر کام کرتے ہیں۔ شہرمیں چلنے والی دو پرائیویٹ ایپ بیسڈ ٹرانسپورٹ کمپنیزںے شہر میں اپنا آپریشن ملتوی کردیا ہے۔ اس علاوہ فیکٹریوں اور دکانوں میں کام کرنے والے لاکھوں مزدورخواتین و حضرات کا روزگار شدید متاثر ہواہے، اور ان کے خاندان فاقہ کشی کا سامنا کرہے ہیں۔ اس صورتحال میں صوبائی حکومت نے متاثر خاندانوں میں ایک مہینے کا راشن تقسیم کرنے کا اعلان تو کیا ہے، مگرصوبائِی حکومت کی خراب حکمرانی کی صورتحال میں یہ امداد متاثرین تک کیسے پہنچے گی ، یہ سب زیادہ تشویش ناک ہے۔ ایسے میں کئی سماجی تنظیموں نے جن میں اخوت بھی شامل ہے نے روزانہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کی امداد کا اعلان کیا ہے، جو کہ حوصلہ افزا ہے۔



سندھ میں سکھرکے علاوہ حیدرآباد و دیگر شہروں میں بھی وائرس کے متاثرین سامنے آرہے ہیں اور امید ہے کہ یہ امدادی ادارے ان کے مسائل کے حل میں بھی موثر کردار ادا کریں گے۔

No comments:

Post a Comment