Showing posts with label Ahfaz ur Rahman. Show all posts
Showing posts with label Ahfaz ur Rahman. Show all posts

Sunday, April 12, 2020

احفاظ الرحمان: ایک دانشورصحافی اور صحافی حقوق کے رہنما



میں ایک صاحب کردار آدمی ہوں
اور ایک صاحب کردار آدمی کی حیثیت سے
یہ چاہتا ہوں کہ جب مروں تو
میرا چہرہ سورج کی طرف ہو : احفاظ الرحمان

کینسر جیسے موذی مرض سے جنگ لڑتے ہوئے سینئر صحافی اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے مرکزی لیڈر احفاظ الرحمان آج (12 اپريل 2020) اتوار کو دن طلوع ہونے سے پہلے اس دنیا سے کوچ کرگئے۔ وہ نا صرف ایک اچھے لکھاری تھے مگر ایک اعلی پیمانے کے شاعربھی تھے۔ ان کے گلے کے کینسر کا آپریشن ہوا تھا اورانہوں نے باقائدہ علاج سے بیماری کو شکست بھی دے دی تھی، مگراس دوران وہ کافی کمزور ہوگئے تھے جس کی وجہ سے ان کو کئی مرتبہ ہسپتال میں داخل ہونا پڑا تھا۔ اس لاک ڈائوں کے دنوں میں بھی وہ ہسپتال میں داخل ہوگئے تھے۔ صبح صبح ان کی شریک حیات مہناز رحمان کی فیس بوک پوسٹ دیکھے جس میں انہوں نے یہ افسوسناک خبر دی اور اوپر دیا گیا شعر بھی شامل کیا تھا، جس کا ایک ٹکڑہ میں نے شیئر کیا ہے۔

جب میں نے 1991 سے انگریزی صحافت میں قدم رکھا تو احفاظ صاحب کو نہیں جانتا تھا، مگر جب بھی کراچی پریس کلب میں جانا ہوتا تھا تو اکثر ان کے اشعاراورنظمیں کلب کے نوٹس بورڈ پر آویزاں دیکھتا تھا اور پڑہتا رہتا تھا۔ دوستوں نے بتایا کہ وہ جنگ اخبار میں کام کرتے ہیں۔


پھر شین – فرخ کے ساتھ مل کر انٹر پریس کمیونیکیشن (آئی پی سی) میں حصہ لینا شروع کیا تو ان کے گلشن اقبال والی صحافی کالونی کے گھر پر مہناز رحمان سے ملاقاتیں ہوئیں، اس طرح احفاظ صاحب سے بھی تعارف ہوا۔ مگر ان سے قربت تب ہوئی جب میں نے کے یو جے اور کراچی پریس کلب کی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ وہ ہمارے رہمنا تھے اوراکثر اوقات الیکشن کے دوران ہدایات دیتے تھے۔ بہت ساری میٹنگز میں میں نے ان کو کئی سینئر رہنمائوں کو ڈانٹے ہوئے بھی دیکھا تھا، اوراکثر اراکین ان سے بہت ڈرتے بھی تھے۔ مگر پریس کلب میں جو دوشخصیات مجھے بہت محبت سے ملتے تھے ان میں احفاظ صاحب اور مرحوم محمود علی اسد تھے۔

احفاظ صاحب کی ٹریڈ یونین کے لیے طویل جدوجہد ہے جس کی داستان بھی اتنی ہی طویل ہے۔ انہوں نے جنرل ضیا کی مارشل لا کے دوران آزادیء صحافت کے لیے پی ایف یو جے کی جدوجہد میں نمایاں کردار ادا کیا اور جیل بھی گئے اور ان کو بلیک لسٹ کردیا گیا جس کی وجہ سے کافی عرصے تک بے روزگاربھی رہے۔


بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں ان کو چائنا میں کام کرنے کا موقع ملا جہاں سے ان کی شریک حیات مہناز رحمان باقائدگی سے اخبارجہاں میں چائنا کی صورتحال پر کالم بھی لکھتی رہی ہیں۔

احفاظ صاحب ایک بڑے صحافی بھی تھے۔ پروفیشنل معاملات میں بھی میں نے سنا ہے کہ بہت سخت تھے، کام میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کرتے تھے۔ جنگ کے بعد جب ایکسپریس اخبار نکلا تو وہ اس کے ادارتی عملے میں شامل ہوگئے۔ ان کے کالم بھی ایکسپریس میں چھپتے تھے۔

جب ملٹری ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے 2007 میں ملک میں ایمرجنسی لگا کر ٹی وی چینلز پر بھی پابندیاں لگائیں توانہوں نے کراچی میں صحافیوں کے احتجاج کی سربراہی کی اور کراچی پریس کلب کے سامنے پولیس کے ڈنڈے بھی کھائے اور گرفتار بھی ہوئے۔ بعد میں جب صحافیوں کو چھوڑا جارہا تھا تو انہوں نے لاک اپ سے نکلے سے انکار کردیا اور پولیس والوں سے کہا کہ جب تک آخری صحافی کو چھوڑا نہیں جاتا وہ لاک اپ سے باہر نہیں آئیں گے۔



وہ کئی کتابوں کے مصنف بھی تھے جس میں ان کی شاعری کے مجموعے بھی شامل تھے۔


مجھے احساس ہے کہ ایک فیملی کے سربراہ کے طور پر یہ ان کی فیملی کے لیے بہت بڑا نقصان ہے اور میں ہماری سول سوسائٹی کی ایک اہم ساتھی محترمہ مہناز رحمان سے اس موقع پر دلی افسوس اور تعزیت کا اظہار کرتا ہوں اوران کے درجات بلند ہونے کی دعا کرتاہوں۔ یقیناً یہ ایک بہت بڑا صحافتی نقصان بھی ہے اور اس خال کو پر کرنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔